دل دستکیں سناتا ہے دریا سے پار کی
یہ بھی تو ایک وجہ ہے خوں میں فشار کی
یہ ڈھول باجہ طبلہ نہ بھائے ہمیں کبھی
ہم کو تو بس پسند صدا ہے ستار کی
دوپھول پاس آءے کھلےاور بکھر گئے
یہ مختصر کہانی ہے فصل بہارکی
آنکھوں سے نیند دور ہے پھیلا ہے بحر شب
اور ڈولتی ہے کشتی دل بے قرار کی
No comments:
Post a Comment